Wednesday, January 14, 2009

بے ثمر لمحہ

دن رات کی اوڑھ کے چادر
چھپتا ہے کہاں پر جاکر
اس وقت سے ہاتھ چھڑا کر
کوئی لمحہ ملے مجھ سے آکر
یہ کون شجر کے نیچے
بیٹھا ہے دھوپ بچھا کر
ایک بھول ہوں، بھول جانا مجھے
اس نے کہا پھر مسکرا کر
کوئی ہجر کی سیاہ راتوں میں
روتا ہے ہر دیپ بجھا کر

Monday, January 12, 2009

جگنو کی ایک لو

میں شبنم کے موتیوں کا ہار پرونے
پھول کی طرف لپکا
اور
شبنم کرنوں کے پر لگا کر اڑ گئی
میں نے پھول توڑنے کے لئے
ہاتھ بڑہایا تو
پتیاں مرجھا گئیں
میں اداس ہوگیا
تو پھر
ایک پتی دفعتا بول اٹھی
کملے !
آنسوؤں کے موتی رول
اور
ان بہاروں کو آواز دے
جو تیری روح میں خوابیدہ ہیں
میں تیری تلاش میں نکلا
تو
کہکشاں کے چلمن تک جا پہنچا
ہر طرف دیکھا
تو نظر نہ آیا
مایوسی میں آنسو بہھ نکلے
پھر آنکھ اٹھا کر دیکھا
تو
تو بہار کے پھول کی طرح پاس ہی مسکرا رہا تھا
مگر میں واپس چل پڑا
تو اس نے پوچھا
مسافر !
تو کہاں جا رہا ہے ؟
اس دنیا کی طرف
جہاں بھونرے گاتے ہیں
اور پھول ناچتے ہیں
دیکھ !
تجھے موت کی تاریک وادی سے گزرنا ہوگا
ایمان کا چراغ ساتھ لے جا
کہ بھٹک نہ جائے
اور ہاں سن میری جاں !
کہ آسمان کی تیرہ فضاؤں کو
شاید
جگمگانے کے لئے ستاروں کی ضرورت پڑے
مگر
تیرے من کی کٹیا کے لئے
صرف ایک جگنو کی لو کافی ہے

Sunday, January 11, 2009

خزاں کا تنہا آوارہ بادل

میرےدوستو !
میری پیشانی عرق انفعال سےبھیگ چکی ہے
کسی نا معلوم سمت سے ہی
ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونگا لادو
جو مجھے چھو کر گزرے
تو !
میری روح اس کی ٹھنڈک سے قرار پاجائے
دیکھو میرے دوستو !
آکاش کی نیلی فضاؤں میں
کروڑوں چراغ جل رہے ہیں
صرف ایک دیا لاکر ہی میری کٹیا میں رکھ دو
میرے دوستو !
کہیں سے موج حیات
جو پھول میں خوشبو
وادی میں آب
اور
میری رگوں میں لہو بن کر
دوڑ جائیں
تو میرے دل کے ویرانے میں
چراغاں ہوجائے
میرے دوستو !
میں اس نیلی فضا میں
خزان کے تنہا بادل کی طرح
آوارہ پھر رہا ہوں
مجھے اس کی جبیں سے پھوٹتی
ایک کرن ہی لادو
تاکہ
میری روح کی ندی میں
نور پھر بہنے لگ

Saturday, January 10, 2009

ایک آنسو کی جزا

آرزو کے سنسان بیابان میں
جب چلتے چلتے تھک گیا
آس تھی کہ ٹوٹنے کو تھی
کہ وہ چاند کی ایک ملیح کرن پر سوار ہوکر
میرے سامنے آگیا
چاروں ظرف ان گنت چراغ جلنے لگے
چاند کی ساکن جھیل میں
یہ نورمیں لپٹی ہوئی کشتی کس کی ہے ؟
اس میں کوئی ستار بجا رہا ہے ؟
جسے سننے کے لئے ساری کائنات نے سانس روک رکھی ہے
میرا خیال تھا !
کہ !
میری راہیں شب کے دھندلکوں میں گم ہو چکی ہیں
عین اسی عالم میں
افق سے ایک ستارہ ٹوٹا
جو
میری راہوں کو جگمگاتا ہوا
میری روح میں ڈوب گیا
اور میرے گیت
جو الفاظ کی قید سے آزاد تھے
سمندر کی لہروں اور فضا کی بدلیوں کی طرح
آزاد، ماورائی وسعتوں میں گم ہو رہے تھے
جیسے !
کونجوں کا کوئی قافلہ دور افق میں نظروں سے اوچھل ہورہا ہو
کہ پھر
بہار کا ایک پرندہ میری کھڑکی پہ آیا
اور گیت گا کر اڑ گیا
پھر خزاں کے زرد پتے
سرسراتے ہوئے آئے اور آگے چلے گئے
میں آج تک فیصلہ نہ کر سکا
کہ !
طائر بہار کا گیت زیادہ دلکش تھا
یا !
برگ خزاں کی سرسراہٹ
پھر
احساس ندامت سے میرا آنسو ٹپکا
تو کہیں دور افق سے صدا آئی
"انسو بہائے جا کہ روح کی برکھا یہی ہے"
میرا سر جھک گیا
تھکن سے میری روح بوجھل ہوئی جاتی ہے
اے میرے رب !
میں حریم دل میں ایمان کی جوت جلا کر
اندھیروں کو باہر دھکیل رہا ہوں
تاکہ
تو اس میں بس سکے

حرف اول

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

الحمد اللہ آج میں اپنے بلاگ کی ابتدا اللہ رب العزت کے پاک نام سے کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ میری تحاریر کو کسی دوسرے کی دل آزاری کا سبب بننے سے محفوظ رکھے

دعا کا طالب

دانیال