دن رات کی اوڑھ کے چادر
چھپتا ہے کہاں پر جاکر
اس وقت سے ہاتھ چھڑا کر
کوئی لمحہ ملے مجھ سے آکر
یہ کون شجر کے نیچے
بیٹھا ہے دھوپ بچھا کر
ایک بھول ہوں، بھول جانا مجھے
اس نے کہا پھر مسکرا کر
کوئی ہجر کی سیاہ راتوں میں
روتا ہے ہر دیپ بجھا کر
چھپتا ہے کہاں پر جاکر
اس وقت سے ہاتھ چھڑا کر
کوئی لمحہ ملے مجھ سے آکر
یہ کون شجر کے نیچے
بیٹھا ہے دھوپ بچھا کر
ایک بھول ہوں، بھول جانا مجھے
اس نے کہا پھر مسکرا کر
کوئی ہجر کی سیاہ راتوں میں
روتا ہے ہر دیپ بجھا کر
No comments:
Post a Comment