Sunday, January 11, 2009

خزاں کا تنہا آوارہ بادل

میرےدوستو !
میری پیشانی عرق انفعال سےبھیگ چکی ہے
کسی نا معلوم سمت سے ہی
ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونگا لادو
جو مجھے چھو کر گزرے
تو !
میری روح اس کی ٹھنڈک سے قرار پاجائے
دیکھو میرے دوستو !
آکاش کی نیلی فضاؤں میں
کروڑوں چراغ جل رہے ہیں
صرف ایک دیا لاکر ہی میری کٹیا میں رکھ دو
میرے دوستو !
کہیں سے موج حیات
جو پھول میں خوشبو
وادی میں آب
اور
میری رگوں میں لہو بن کر
دوڑ جائیں
تو میرے دل کے ویرانے میں
چراغاں ہوجائے
میرے دوستو !
میں اس نیلی فضا میں
خزان کے تنہا بادل کی طرح
آوارہ پھر رہا ہوں
مجھے اس کی جبیں سے پھوٹتی
ایک کرن ہی لادو
تاکہ
میری روح کی ندی میں
نور پھر بہنے لگ

No comments: