Saturday, January 10, 2009

ایک آنسو کی جزا

آرزو کے سنسان بیابان میں
جب چلتے چلتے تھک گیا
آس تھی کہ ٹوٹنے کو تھی
کہ وہ چاند کی ایک ملیح کرن پر سوار ہوکر
میرے سامنے آگیا
چاروں ظرف ان گنت چراغ جلنے لگے
چاند کی ساکن جھیل میں
یہ نورمیں لپٹی ہوئی کشتی کس کی ہے ؟
اس میں کوئی ستار بجا رہا ہے ؟
جسے سننے کے لئے ساری کائنات نے سانس روک رکھی ہے
میرا خیال تھا !
کہ !
میری راہیں شب کے دھندلکوں میں گم ہو چکی ہیں
عین اسی عالم میں
افق سے ایک ستارہ ٹوٹا
جو
میری راہوں کو جگمگاتا ہوا
میری روح میں ڈوب گیا
اور میرے گیت
جو الفاظ کی قید سے آزاد تھے
سمندر کی لہروں اور فضا کی بدلیوں کی طرح
آزاد، ماورائی وسعتوں میں گم ہو رہے تھے
جیسے !
کونجوں کا کوئی قافلہ دور افق میں نظروں سے اوچھل ہورہا ہو
کہ پھر
بہار کا ایک پرندہ میری کھڑکی پہ آیا
اور گیت گا کر اڑ گیا
پھر خزاں کے زرد پتے
سرسراتے ہوئے آئے اور آگے چلے گئے
میں آج تک فیصلہ نہ کر سکا
کہ !
طائر بہار کا گیت زیادہ دلکش تھا
یا !
برگ خزاں کی سرسراہٹ
پھر
احساس ندامت سے میرا آنسو ٹپکا
تو کہیں دور افق سے صدا آئی
"انسو بہائے جا کہ روح کی برکھا یہی ہے"
میرا سر جھک گیا
تھکن سے میری روح بوجھل ہوئی جاتی ہے
اے میرے رب !
میں حریم دل میں ایمان کی جوت جلا کر
اندھیروں کو باہر دھکیل رہا ہوں
تاکہ
تو اس میں بس سکے

2 comments:

khan g said...

bohhit hi achy andaz man apni roh ki sachai byan ki hy......parh kar asa guman hota hy k yah hamary hi awaz hy ..zabardast

برزخ گم کشتہ said...

bohot shukriya Huma Sahiba. . .. lafz ansani jazbat key akas hotye, khuwa wo kisi ky bhe hon